خوراک کی ارتقا۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا آنا اور تبدیلی کا لانا کوئی
بری بات نہیں اسی کا نام ارتقاء ہے دنیا کی کوئی چیز بھی ارتقاء کے عمل سے باہر نہیں. ہمارے کھانے پینے کی عادات اور طور طریقے بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں جس خطے میں ہم رہتے ہیں اسے food basket کہنا بیجا نہ ہو گا ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے صاف شفاف دریا ندیاں نالے جو اپنے ساتھ معدنیات کا ذخیرہ لے کر KPK، پنجاب، سندھ، بلوچستان کی زمینوں کو سیراب کرتے ہوۓ  سمندر کی اتھاہ گہرایوں میں غائب ہو جاتے ہیں. اور پھر یہی زرخیز مٹی کروڑوں انسانوں کو ہر طرح کی خوراک فراہم کرتی ہیں. قدرت نے پاکستان کو ایسی زرخیز زمین اور آب و ہوا فراہم کی ہے جو پھلوں ، پھولوں سبزیوں اور اجناس کو ایسی خوشبو اور لذت عطا کرتی ہے جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں. میکسیکو کے آم اٹھا کر دیکھ لیں. ہزار بار سونگھنے پر بھی آم کی خوشبو نہیں آے گی. پاکستان کا کوئی آم اٹھا لیں ابھی وہ ایک میل دور ہو گا کہ ہر طرف آپ کو آموں کی مہک مدہوش کر دے گی.  پاکستانی انور رتول جتنا میٹھا ہوتا ہے شائد شہد کو بھی اپنا میٹھا ہونے پر شک ہونے لگتا ہو گا
امریکا کے سیب جو اپنی رنگت اور خوبصورتی میں شائد دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں لیکن ان میں نہ وہ مٹھاس ہے اور نہ ہی وہ ذائقہ جو پاکستان کے سیبوں کا ہے اگرچہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں ایک چھوٹا ملک ہے لیکن سیب کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دسویں نمبر پر ہے. بلوچستان میں سب سے زیادہ سیب کی پیداوار ہوتی ہے اس کے بعد KPK خاص طور پر وادی سوات، آزاد کشمیر، مری اور دوسری گلیات سیب کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں
امریکا میں ہر رنگ اور ہر سائز کے انگور ملتے ہیں ایک انگور ہے جسے گلوب انگور کہا جاتا ہے جو سائز میں اتنا بڑا ہوتا ہے کہ مشکل سے ایک ہی انگور منہ میں آتا ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کا چمن کا انگور جسے شائد سندرخانی بولا جاتا ہے اپنی مٹھاس، ذائقے، اور خوشبو میں اپنا ثانی نہیں رکھتا
یہی حال باقی سبزیوں اور پھلوں کا ہے اگردنیا کے دوسرے ملکوں کے پھلوں اور سبزیوں  کا پاکستانی پھلوں اور سبزیوں سے موازنہ کیا جاے تو شائد پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کی خوبیاں لکھتے لکھتے انگلیاں جواب دے جائیں یہاں میرا مقصد کسی ملک کی اچھائی یا برائی کرنا نہیں ہے بات صرف اتنی ہے پاکستان موسم اور جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جس کی زرخیز زمین اور آب و ہوا دنیا کے بہترین پھل اور سبزیاں پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا
قدرت کی ان عظیم نعمتوں کی فراوانی اور دستیابی کے باوجود ہم ہر روز ان نعمتوں کی ناشکری کرتے نظر آتے ہیں. سبزیوں کے ساتھ ہم سوکن جیسا سلوک کرتے نظر آتے ہیں اکثر پاکستانی سبزیوں سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے چور کتے کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اپنی لنگوٹی چھوڑ کر بھاگتا ہے. ایک زمانہ تھا چینیوں کو افیون کی عادت پڑ چکی تھی پوری قوم افیم کے نشے کا شکار تھی بلکل اسی طرح آج پوری پاکستانی قوم گوشت کے نشے کا شکار نظر آتی ہے.  شادیوں،والیموں میں ہر طرف گوشت کے پکوان، کباب، تکوں، مٹن کڑاہی کے ریستورانوں میں ہر وقت اتنا رش جیسے مفت میں گوشت بٹ رہا ہو. پاکستان میں یا تو غریب سبزی کھاتا ہے جو گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتا یا پھر جسے گوشت کھا کھا کر بواسیر ہوئی ہوتی ہے اور ڈاکٹر نے زبردستی اسے گوشت کھانے سے منع کیا ہوتا ہے
گوشت کو ہم اتنا پکاتے ہیں کہ گوشت بھی پاکستانیوں سے پناہ مانگنے لگتا ہے، جب تک گوشت سے سارا juice نہ نکل جاے اور کالا رنگ نہ چھوڑنے لگے ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ گوشت پک چکا ہے. گوشت کو کوئلوں اور کھلی آگ پر اتنا پکانے سے گوشت carcinogenic ہو جاتا ہے یعنی گوشت میں ایسے کیمکل پیدا ہو جاتے ہیں جو انسان میں کینسر کا سبب بنتے ہیں. بہت زیادہ گوشت کھانا ویسے بھی صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے
یقیناً ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی سبزیاں نہیں کھاتے بہت سے گھروں میں آج بھی سبزیاں شوق سے کھائی جاتی ہوں گی لیکن یہاں بھی سبزیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے انھیں اتنا پکایا جاتا ہے کہ ان کی  چیخیں نکل جاتی ہیں. پکنے کے بعد ہر سبزی ایک شکل، رنگ اور ذائقہ اختیار کر لیتی ہے اطمینان کے لئے پوچھنا پڑتا ہے یہ کونسی سبزی تھی؟ سونے پر سہاگہ سبزیوں میں اتنے مرچ مصالے ڈالے جاتے ہیں کہ سبزیوں سے زیادہ ان مصالوں کا ذائقہ آنے لگتا ہے سبزیوں کو کچھ ہوش نہیں رہتا کہ انکی اصلی شکل، رنگ اور ذائقہ کیا تھا
 آج بھی گھر کی بڑی بہوّیں یہ گیت بڑے شوق سے گاتی نظر آتی ہیں" گھی بناے سالنا
بڑی بہو کا نام"
شروع شروع میں جب میں امریکا آیا تو بڑے شوق سے پاکستانی کھانے بناتا اور پھر اپنے امریکی دوستوں اور سہیلیوں پر اپنی کوکنگ skill کا رعب جھاڑنے کے لئے کھانے پر invite کرتا تو وہ اکثر شکوہ کرتے "مسعود اتنا زیادہ گھی (تیل) تم نے ڈال دیا ؟"
 لیکن یہ تو عام سی بات ہے ہم لوگ تو اتنا ہی گھی ہر سالن میں اور ہر کھانے میں ڈالتے ہیں. میں نے  تو ابھی بھی ہاتھ ہولا رکھا ہے ورنہ ہمارے ملک میں تو بوٹی کو گھی کے تالاب سے مچھلی کی طرح نکالنا   پڑتا ہے سبزیوں کا بھی یہ حال ہوتا ہے. سب بھنڈیاں اور کریلے گھی کی اتھاہ گہرائیوں میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں انھیں بڑے چمچے سے ڈھونڈ کر جگانا پڑتا ہے تب جا کر وہ کہیں دکھائی دیتے ہیں
اگر میں یہ کہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ گھی، تیل اور مرغن غذائیں پاکستان میں کھائی جاتی ہیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا. ایک زمانہ تھا ہارٹ اور شوگر کو امیروں کی بیماری کہا جاتا تھا. دل کا الگ سے کوئی ہسپتال نہیں ہوا کرتا تھا آج پاکستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک کارڈیولوجی سینٹر ضرور کھل رہا ہے کوئی اپنی شوگر ٹیسٹ کروانے میں لگا ہے تو کوئی دل کی بیماری کا شکار نظر آتا ہے. ایک ایسا خطہ جسے قدرت نے غذایت اور صحت مند پھلوں سے مالا مال کیا ہے آج اس خطے کی اکثریت اسی غذایت کی بے قدری اور غلط استعمال سے صحت کے مسائل سے دوچارہے
آبادی میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے آج سے تیس چالیس سال پہلے غریب کے گھر بھی پھلوں کے تھیلے آیا کرتے تھے آج ایک سیب خریدنا مشکل ہو گیا ہے یقینن آبادی کے جن کو کنٹرول کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ورنہ یہ جن سب کے پھل اور سبزیاں خود کھا جاے گا اورعوام کی  اکثریت یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھتی رہ جاے گی
آئیے ہم سب مل کر غذائیت کے اس ارتقاء کو صحیح سمت کی طرف موڑنے کو کوشش کرتے ہیں. پوری دنیا میں ہم ایک گوشت خور قوم مشہور ہیں آئیے ہم سب ملکر اس سوچ کو بدلنے کی سہی کرتے ہیں قدرت کی ان نعمتوں کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب ہم انھیں توازن کے ساتھ استعمال کریں . گوشت کو کم سے کم استعمال کریں. گوشت کو اتنا مت بھونیں کہ سارا گوشت ہی carcinogenic ہو جاے اور پھر خان صاحب کو ہر ضلع میں ایک کینسر ہسپتال کھولنا پڑے  سبزیوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیے اور روزانہ پھل اور سبزیاں کھائیے. دودھ اور گھی کا استعمال بھی کم کیجئیے یقیناً آپ کی صحت کے لئے وٹامن D اور پروٹین بہت ضروری ہے جو گوشت اور دودھ سے حاصل ہوتی ہے اگر آپ گوشت کی جگہ دالیں اور مختلف beens بینز کھاتے ہیں تو آپ کی پروٹین اور دوسرے وٹامن کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے. بہت  زیادہ  چاول، refined flour اور میدے کی بنی دوسری چیزوں سے پرہیز کیجیے یہ کاربوہائیڈریٹس آپ کے جسم میں جا کر glucose میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس طرح اگر آپ کا لائف سٹائل active نہیں ہے تو یہ glucose یا شوگر آپ کے خون میں جمع ہوتی رہتی ہے اور اس طرح آپ کو شوگر ہو جاتی ہے نشاستہ دار چیزیں کم سے کم استعمال کریں
سبزیوں کے ساتھ ظلم مت کیجئے انھیں بہت زیادہ مت پکائیے اس طرح ان کی غذایت کم ہو جاتی ہے اور ان میں موجود بہت سارے وٹامنز اور منرلز ضایع ہو جاتے ہیں. سبزیوں کو تھوڑے سے تیل میں saute کیجیے . یعنی انھیں ہلکی آنچ پر اتنا پکائیں کہ ان میں crunchiness باقی رہے ہلکا سا نمک، کالی مرچ اور لیموں نچوڑیں اور مزے سے کھائیں. اپنی مرضی کے مصالے ڈالنا چاہیں تو ڈال لیں اگر انھیں کسی sauce یا چٹنی کے ساتھ کھائیں تو  مزہ اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے. mushroom کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں .  ان میں calories بہت ہی کم ہوتی ہیں . مشروم آپکا وزن کم کرنے میں بہت مدد کرتی ہیں اور ان میں پروٹین، vitamin D اور دوسرے بہت سے وٹامنز اور منرلز ہوتے ہیں مشروم کو اپنی روزانہ کی خوراک کا حصہ بنائیے.  مشروم خاص طور پر diabetes کے مریضوں کے لئے بہت اچھی ہیں ان سے شوگر لیول نہیں بڑھتا
خوش رہیے، روزانہ ورزش کیجیئے,  صحت مند غذا کھایئے اور سب سے پیار کیجیئے
غذا کے اسی ارتقاء پر مجھے آج بات کرنی تھی

تحریر
مسعود ملک

Post a Comment

0 Comments