کتا اگر آپ کو کاٹتا ہے تو اس سوچ بچار میں وقت ضائع مت
کیجیے کہ وہ پاگل تھا یا گھریلو تھا، پہلی فرصت میں قریبی سرکاری ہسپتال جائیے۔ وہاں ایمرجیسنی والے اس صورت حال کو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے سو گنا زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں، روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں۔ مرچیں لگانا، سکہ باندھنا، تعویز بندھوانا، یہ سب تکے لگانے جیسا ہے۔ اگر کتا پاگل نہیں تھا تو یہ سب ٹوٹکے کام کریں گے، اگر پاگل تھا تو موت یقینی ہے!
ہسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیے اس کے بعد پٹی مت باندھیں۔ اسے کھلا رہنے دیجیے اور ہسپتال چلے جائیے۔ چودہ ٹیکوں کا زمانہ گزر گیا۔ ایک مہینے میں پانچ ٹیکوں (شیڈول: 0-3-7-14-28) کا کورس ہو گا، بہت سی کمپنیوں کی بنائی سیل کلچرڈ ویکسینز مارکیٹ سے مل سکتی ہیں۔ جو چیز یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ کسی اچھی فارمیسی سے ویکسین خریدی جائے کیوں کہ اس کا اثر تب ہی بہتر ہو گا جب یہ مسلسل کولڈ چین میں رہے گی۔ کوئی بھی ویکسین (سوائے پولیو اورل کے) بننے سے لے کر دوکان پر آنے تک دو سے آٹھ ڈگری کا ٹمپریچر مانگتی ہے، جب بھی یہ سلسلہ ٹوٹے گا، بہرحال اس کا اثر ویکسین کی کوالٹی پر ہو گا۔ ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG لگوانے بھی اکثر ضروری ہوتے ہیں۔
اگر کتا آپ کا اپنا پالتو نہیں ہے تو کوئی رسک لینے سے بہتر ہے کہ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG ضرور لگوائیں۔ اسی طرح کتا جتنا سر کے قریب کاٹے گا، وائرس اتنی تیزی سے دماغ تک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پاؤں پر یا ٹانگ پر کاٹا ہے تب بھی جلدی ہسپتال جانا ضروری ہے لیکن کندھے یا گردن والے معاملے میں بے احتیاطی ہرگز نہیں ہونی چاہئیے، فوری طور پر ہسپتال کا رخ کرنا اور ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG (یہ بھی کئی کمپنیوں کے موجود ہیں) لگوانا بہتر ہے۔ کتے کا پنجہ لگے، کوئی خراش ہو جائے، یا آپ کے کسی زخمی حصے کو کتا چاٹ جائے، ریبیز کا ٹیکہ لگوا لیجیے، احتیاط لازم ہے۔
اگر کتا آپ کے یہاں پالتو ہے، یا آپ جانوروں کے ڈاکٹر ہیں، یا آپ فوج میں ہیں، یا دیہی علاقے کی پولیس میں ہیں، یا کسی بھی ایسی جگہ ہیں جہاں دوران ملازمت آپ کھلے میدانوں کا رخ کر سکتے ہیں، یا کتوں والے کسی بھی علاقے میں جانا پڑ سکتا ہے تو آپ ریبیز سے بچاؤ کا حفاظتی کورس بھی کر سکتے ہیں۔
ریبیز سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں آج تک پانچ سے زیادہ لوگ بچ نہیں سکے۔ وہ بھی دس بارہ سال پہلے ایک تجربہ شروع کیا گیا تھا جس میں مریضوں کو مصنوعی طریقے سے کئی ماہ تک بے ہوش رکھا گیا، انہیں مختلف دوائیں دی گئیں اور آہستہ آہستہ جب وائرس ختم ہو گیا تب ہوش میں لایا گیا۔ لیکن یہ طریقہ بھی کئی سو میں سے صرف پانچ لوگ بچا سکا۔ ان پانچ کے بارے میں بھی ڈاکٹر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں والدین سے ریبیز کے خلاف قوت مدافعت آئی ہو گی۔
بلی، گائے، بھینس، گھوڑا، گدھا، چمگادڑ، ہر وہ جانور جو دودھ پلانے والا ہے، وہ ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاگل کتا جب انہیں کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ وہی جراثیم انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں اگر یہ جانور کاٹ لیں۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں بھتلہسپتالوں میں آتے ہیں اندازہ کر لیجے باقی ملک میں
0 Comments