تھائی لینڈ کا سفر (دوسری قسط)
اب میں دوبارہ تھائی سفارتخانے گیا لیکن اس بار میرے پاس بینک سٹیٹمنٹ میں تیس ہزار سے زاید رقم موجود تھی۔ سفارت خانے والوں نے مجھے اسی دن دوپہر کے بعد آنے کو کہا ۔ جب میں پاسپورٹ لینے گیا تو اس پر ویزہ لگا ہوا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس کے بعد میں گاوں آیا اور سفر کی تیاریاں شروع کیں۔ سفری پروگرام کے مطابق مجھے پشاور سے کراچی، کراچی سے بنکاک اور بنکاک سے چیانگ مائی سفر کرنا تھا۔ یعنی تین پروازیں ایک طرف سے اور تین دوسری طرف سے۔ لیکن میں نے سوچا کہ اس طرح تو میں تھائی لینڈ کی سرزمین نہیں دیکھ سکوں گا اس لیے میں نے ٹریول ایجنٹ کو مطلع کیا کہ میں واپسی پر چیانگ مائی تا بنکاک سفر جہاز میں کرنے کی بجائے بس یا ریل میں کروں گا۔
یوں اسلام آباد تا کراچی سفر کے بعد کراچی میں ایک رات گزار کر اگلے دن شام کو بنکاک کی فلائٹ پکڑنی تھی۔ باوجود ڈاکٹروں کی یقین دہانی کے مجھے ہوائی سفر کے دوران اپنی صحت کے بارے میں خدشات تھے اس لیے میں نے کراچی میں مقیم اپنے بھائیوں کو اپنی آمد کی تاریخ اور وقت کی اطلاع دی تاکہ خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہو تو وہ احتیاطا ائرپورٹ پر موجود رہیں۔ میں نے ایک رات اپنے بھائیوں کے ہاں نارتھ ناظم آباد میں گزاری اور اگلی شام سات یا آٹھ بجے دوبارہ کراچی ائرپورٹ گیا۔ یہ میری زندگی کی پہلی غیرملکی پرواز تھی اس لیے وقت سے کافی پہلے ائرپورٹ پہنچا۔
بنکاک جانے والی تھائی ایرلائنز کی پرواز رات 10 بجے کی تھی۔ جہاز نے اُڑان بھری تو دور دور تک کراچی شہر کی روشنیاں نظر آئیں۔ جہاز اپنے انجنوں کی طاقت سے چند ہی لمحوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں فٹ بلندی پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد کا سفر اندھیرے میں جا ری رہا۔ میں ابھی دیگر فضائی کمپنیوں سے ناواقف تھا اس لیے تھائی ائرلائنز کے انتطامات سے خاصا متاثر ہوا۔مثلا میں نے دیکھا کہ جہاز میں سامان رکھنے کی جگہ کے اوپر سے بھاپ سی نکلی جو دراصل جہاز کی اندرونی فضاء کو خوشگوار بنانے کے لئے خوشبودار سپرے تھا اور پھر خاتون فضائی میزبان نے رول کئے ہوئے چھوٹے چھوٹے گیلے اور معطر تولیےمسافروں میں چمٹوں سے پکڑائے تاکہ ان سے اپنے ہاتھ منہ اور گردن کو تازگی کا احساس دلائیں۔
میں نے انٹرنیٹ کے زریعے تھائی ائرلائنز والوں کو پہلے سے مطلع کر رکھا تھا کہ دوران سفر مجھے حلال خوراک جو چکنائی کے بغیر ہو فراہم کی جائے ۔ اس لیے جہاز جیسے ہی فضا میں مطلوبہ اونچائی تک پہنچا اور مسافروں نے اپنی حفاظتی پٹیاں کھول دیں تو پرواز کا ایک مرد فضائی میزبان مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میری نشست تک آیا اور میرے نام کی تصدیق کی جو اس کے پاس ایک فہرست میں موجود تھا۔ جہازوں میں بچوں، معذوروں اور میری طرح کے "خصوصی مسافروں" کی تواضح ترجیحی طور کی جاتی ہے ۔مجھ سے یہ سلوک دیکھ کر آس پاس کی نشستوں کے مسافروں نےمیری طرف رشک بھری نظروں سے دیکھا۔ تھائی لینڈ بیرونی سیاحوں کو اپنے ملک لانے کے لیے بہت مراعات فراہم کرتا ہے جو سالانہ لاکھوں کی تعداد میں وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
کراچی – بنکاک کا سفر دس گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔ لیکن چونکہ تھائی لینڈ میں صبح پاکستان کے مقابلے میں دو گھنٹے پہلے ہوگئی اس لیےجہاز میں سفر کرتے ہوئے رات کا اندھیرا دو گھنٹے کم ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان وقت کا فرق میرے دو گھنٹے کھا گیا۔ یہ ایک طویل سفر تھا لیکن مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ وقفے وقفے سے جہازہچکولے کھاتا جس سے تشویش ہونے لگتی لیکن پائلٹ کی طرف سے اس کی پیشگی اطلاع جاتی کہ آگے ہوا میں ہلچل ہونے والی ہے اس لیے حفاظتی پٹیاں باندھے رکھیں۔
سفر کے آخری حصے میں یعنی صبح کے قریب جہاز کی دائیں کھڑکیوں میں روشنی اور بائیں کھڑکیوں میں اندھیرا تھا۔ جوں جوں جہاز آگے بڑھتا گیا دائیں طرف کی روشنی میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ بائیں طرف بدستور اندھیرا تھا۔ یہ کیفیت دس پندرہ منٹ جاری رہی اور اس کے بعد بائیں طرف بھی روشنی ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔اگرچہ میرے اندازے کے مطابق ہم مغرب سے مشرق کی طرف جا رہے تھے لیکن یہاں عملا ہمارے دائیں طرف مشرق اور بائیں مغرب تھا۔ جب جہاز کے کپتان کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ بیس منٹ بعد جہاز اترنا شروع ہوگا اس وقت تک دونوں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔
بالاخر جہاز بنکاک ائرپورٹ پر اُتر گیا تو مجھےسامان کی جگہ پر انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ میرے پاس ایک بریف کیس تھا جو میں نے جہاز کی کیبن میں سیٹ کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ مجھے باقی مسافروں پر رشک آنے لگا کہ وہ اپنا سامان لے کر ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے اور مجھے اگلے چار گھنٹےاسی ہوائی اڈے کے اندر انتظار میں گزارنے تھے اور اس کے بعد ایک گھنٹے کی ایک اور پرواز سے چیانگ مائی جانا تھا۔ ایک طرف رات بھر جاگنے کی وجہ سے نیند کا غلبہ تھا دوسری طرف بریف کیس چوری ہونے کا ڈر کیونکہ میں نے بنکاک ائرپورٹ میں چوری چکاری کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ میں وقت گزاری کے لیے ہوائی اڈے کے اندر گھومنے لگا لیکن بریف کیس کو بھی ساتھ لے کر گھماتا رہا۔ ایک جگہ سستانے کے لیے ایک بنچ پر بیٹھا تو سامنے چائے اور کافی کا سٹال تھا جسے ایک تھائی خاتون چلا رہی تھی۔ یہاں بہت کم لوگوں کو چائے یا کافی خریدتے دیکھا لیکن خاتون مسلسل کچھ نہ کچھ کام کرتی رہتی اور ایک لمحے کے لیے بھی آرام سے نہ بیٹھتی۔ میں نے اس کا موازنہ اپنے ہاں کی خواتین سے کیا جو اس قدر محنت کم ہی کرتی ہیں۔
آخر مقامی وقت کے مطابق صبح کے دس بج گئے اور میری پرواز کا وقت ہوگیا۔ یہ جہاز بھی تھائی ائرلائنز کا تھا لیکن اس میں سواریوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ جہاز میں میری نشست کھڑکی کے ساتھ تھی جہاں سے میں پرواز بھرتے وقت بنکاک کا نظارہ کرسکتا تھا ۔ اس کے بعد بھی خوش قسمتی سے موسم صاف تھا جس کی وجہ سے میں پہاڑیوں اور سرسبز میدانوں کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اس پرواز کے دوران صرف جوس اور کیک پیش کئے گئے کیونکہ اس کا دورانیہ زیادہ نہ تھا۔ چیانگ مائی ہوائی اڈے پر اترتے وقت کا منظربھی بہت بھلا لگا۔ ہر طرف ہریالی تھی۔
جہاز کے دروازے سے نکلتے ہی مختلف ہوٹلوں اور اداروں کی طرف سےاپنے اپنے مہمانوں کے استقبال کے لیے ان کے نمائندے کتبے لیے کھڑے دیکھے ۔ کسی کتبے پر ہوٹل یا ادارے کا نام لکھا تھا اور کسی پر آنے والے مہمان کا۔ وہ لوگ اپنے مہمانوں کو سلام کرکے ان کے ہاتھ سے بریف کیس وغیرہ لے لیتےاور پھر انہیں باہر کھڑی گاڑی کی طرف لے جاتے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی مسکراتے ہوئے میری طرف آ رہا ہے۔ اس کے پاس جو کتبہ تھا اس پر میرا نام لکھا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے کتبہ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سےمیرا نام دکھا کر پوچھا کہ کیا یہ تم ہو۔ میں حیران رہ گیا کہ مجھے تو منتظمین نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ میرے استقبال کے لیے آدمی بھیجیں گے اور وہ میرے نام والا کتبہ لیے میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ حالانکہ منتظمین نے چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی تفصیل لکھی تھی۔ خیر میں لمحے بھر کے لیے خود کو وی آَئی پی سمجھنے لگا اس لیے قدرے اکڑ کر ہاں کہہ دی اور اپنا بریف کیس آگے کیا ۔ اس نے بریف کیس نہیں پکڑا بلکہ مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور ایک طرف ایک کمرے تک لے جا کر خود غائب ہوگیا۔ فوری طور پر میں سمجھ گیا کہ یہ آدمی میرے استقبال کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ ایمیگریشن والوں کا بندہ تھا جنہیں پتہ تھا کہ میری انٹری بنکاک میں نہیں ہوئی تھی ۔ میں نے اپنا پاسپورٹ بڑھایا اور ایمیگریشن آفیسر نے ایک دو سوالات پوچھ کر پاسپورٹ پر ٹھپہ لگا دیا۔ دراصل میں بنکاک ہوائی اڈے پر چند گھنٹے رکا تھا لیکن ہوائی اڈے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس لیے میں قانونی طور پر تھائی لینڈ میں چیانگ مائی کے راستے داخل ہو رہا تھا۔
ایمیگریشن سے فارغ ہوکر میں نے کرنسی تبدیل کی۔ تھائی لینڈ کی کرنسی بھات کہلاتی ہے۔اس وقت ایک ڈالر کے پچیس یا تیس بھات ہوتے تھے۔ کانفرنس منتظمین نے اپنی ہدایات میں لکھا تھا کہ چیانگ مائی ہوائی اڈے سے شہر کے مرکز تک 150 بھات ٹیکسی کا کرایہ ہوتا ہے۔ مجھے دیکھ کر کئی ٹیکسی والے آگئے اور اپنی خدمات پیش کیں۔ میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا نائٹ بازار تک کتنا کرایہ ہے تو اس نے 150 بھات ہی بتائے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے میرا بریف کیس گاڑی میں رکھا، میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا اورگاڑی چل دی۔
میں نے راستے میں اندازہ لگایا کہ یہ بالکل مختلف جگہ ہے۔ سائن بورڈوں پر لکھائی ناقابل فہم، درخت اور پودے مختلف، لوگوں کا لباس مختلف سب کچھ مختلف۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور مجھے گاڑی کے شیشے میں دیکھ کر پوچھنے لگا کہاں سے آئے ہو؟ کیوں آئے ہو؟ کس ہوٹل میں ٹہرنا ہے؟ مجھے اس کے تھائی لہجے میں انگریزی سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ جب میں نے بتایا کہ میں نائٹ بازار میں ہوٹل "رائل لانا"میں ٹہروں گا تو کہنے لگا کہ میں تمہیں اس سے بہتر ہوٹل لے کر جاوں گا۔ میں نے کہا نہیں میں رائل لانا میں ہی ٹہروں گا۔ وہ اصرار کرنے لگا کہ دوسرے ہوٹل میں میرا کمیشن بنتا ہے اور تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میں نے کہا میں کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا ہوں اور ہوٹل کانفرنس والوں نے پہلے سے بک کرایا ہوا ہے۔ میں ان کا مہمان ہوں۔ اس پر وہ خاموش ہوگیا۔
کچھ دیر بعد ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں بہت گہماگہمی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ہم نائٹ بازار پہنچ گئے ہیں۔ ٹیکسی ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے رکی جس پر واضح طور پر Hotel Royal Lanna لکھا ہوا تھا۔ میں نے ٹیکسی والے کو دو سو بھات دئے تو اس نے مجھے پچاس کی بجائے تیس بھات واپس کر دئے اور کہا سوری میرے پاس چینچ نہیں ہے۔ اس طرح مجھے کرایہ 150 کی بجائے 170 بھات دینا پڑے۔ یہ پہلا بے ایمان تھائی تھا جس سے میرا واسطہ پڑا۔ مجھے کئی لوگوں نے تھائی لینڈ اور خصوصا چیانگ مائی کے چوروں، نوسربازوں اور بد دیانت لوگوں سے خبردار کیا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
0 Comments