تھائی لینڈ کا سفر پارٹ 1



تھائی لینڈ کا سفر   (پہلی قسط)


ایران کے بعد تھائی لینڈ کا سفر میرا دوسرا غیرملکی سفر تھا۔ سفر پر جانے سے پہلے بلکہ سفر کی تیاریوں کے دوران میرے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا جس نے میری زندگی پر بڑا اثر ڈالا اس لیے اس واقعے کی تفصیل بھی سفر کا حصہ ہوگی۔ 


ہوا یوں کہ مجھے 2004 کے اوائل میں معلوم ہوا کہ مئی کے مہینے میں تھائی لینڈ کے شمالی شہر "چیانگ مائی" کی ایک یونیورسٹی میں لغت نویسی سے متعلق کانفرنس ہو رہی ہے۔ میں چونکہ 1996 سے اپنی مادری زبان کی لغت پر کام کر رہا تھا اس لیے اپنے تجربات پر مبنی مقالے کا خلاصہ کانفرنس منتظمین کو بھیجا جسے انہوں نے منظور کر لیا۔ اس کے بعد سفر سے متعلق عملی لوازمات پورا کرنے کی فکر ہوئی یعنی جہاز کا ٹکٹ اور تھائی لینڈ میں قیام و طعام کے اخراجات کا بندوبست کرنا۔ جب قیام و طعام کے اخراجات کی پیشکش کانفرنس والوں کی طرف سے ہوئی تو دوسرا بڑا خرچہ ہوائی ٹکٹ کا رہ گیا۔ اس سلسلے میں ایک دوست کی نشاندہی پر لسانیات سے متعلق ایک بین الاقوامی ادارے کو رجوع کیا۔ اس ادارے نے ضروری کاغذی کاروائی کے بعد ہوائی جہاز کے دوطرفہ ٹکٹ کے اخراجات برداشت کرنے کی منظوری دیدی۔ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے مراحل سے واقف ہونے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ میں بڑا خوش ہوا کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں تھائی لینڈ جاسکوں گا اور میرے ذمہ کرنے کا واحد کام اب تھائی لینڈ کے ویزے کا حصول اور مکمل مقالہ لکھنا رہ گیا۔ 

ویزے کے لیے میں نے کانفرنس والوں سے دعوت نامہ منگوا رکھا تھا اور ساتھ ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور تھائی لینڈ میں قیام و طعام کے اخراجات سے متعلق ضروری کاغذات ویزہ درخواست کے ساتھ تھائی سفارت خانے میں جمع کروا دئیے۔ ویزے کے حصول کے لیے درکار کاغذات میں سے ایک کاغذ گزشتہ چھ ماہ کا بینک سٹیٹمنٹ کا بھی شامل تھا جو میں نے اپنے بینک سے حاصل کیا تھا۔ اس سٹیٹمنٹ میں میرے اکاونٹ میں بیلنس کچھ بھی نہ تھا۔ اُس سے صرف یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ہر ماہ تنخواہ اکاونٹ میں جمع ہوئی  اور پھر نکالی گئی۔ چونکہ میرے سفری اخراجات کی ذمہ داری دوسرے اداروں نے لی تھی اور یقین دہانی پر مشتمل  کاغذات  ویزہ درخواست فارم کے ساتھ داخل کئے گئے تھے اس لیے میں مطمئن تھا کہ مجھے ویزہ ضرور لگے گا اور میرے بینک اکاونٹ میں پیسے نہ ہونے کا میری درخواست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن تھائی سفارت خانے والوں نے مجھے ویزہ دینے سے انکار کردیا۔ میری زبانی وضاحت کے باوجود سفارت خانے کی ایک پاکستانی خاتون ملازم نے میری ویزہ درخواست میری طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ ہمارے قانون کے مطابق تمہارے بینک اکاونٹ میں کم از کم پچیس ہزار پاکستانی ہونے چاہیں لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں ۔ 


میں کاغذات لے کر باہر نکلا اور اسلام آباد میں موجود اپنے ایک دوست کو پیسوں کے لیے فون کیا جس کے ذمہ میری کچھ رقم کافی عرصے سے واجب الادا تھی۔ اس نے اپنے پاس آنے کو کہا اور مطلوبہ رقم ڈرافٹ کی شکل میں مجھے دی لیکن اس وقت تک سفارت خانے کا ویزہ سیکشن بند ہوچکا تھا اور اب مجھے لازمی اگلے ہفتے دوبارہ آنا تھا۔ اس دوست نے کہا میرے پاس گاڑی ہے، چلو دامن کوہ اور پیر سوہاوہ گھومنے چلتے ہیں۔ ہم خوب گھومے، کھانا کھایا اور شام کو دوست سے اجازت لے کر رات گزارنے پشاور آیا تاکہ وہاں  کچھ ضروری کام نمٹا کر گاوں واپس جا سکوں۔ 


اسلام آباد پشاور کا سفر کوسٹر میں کیا۔ سفر کے دوران مجھے سینے میں ہلکا سا درد محسوس ہوا جس کی وجہ سے راستہ بھر کچھ بے چینی سی رہی ۔ پشاور میں گاڑی سے اتر کر پاس ہی ایک گنے والے سے جوس طلب کیا جو برف کی وجہ سے خاصا ٹھنڈا تھا۔ اس کے بعد پشاور صدر میں  گھر والوں کے لیے کچھ چیزوں کی خریداری کی۔ اس دوران کافی  پیدل چلنا پڑا جس سے سینے کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ میں نے یہ سوچ کر کہ شاید گنے کے ٹھنڈے جوس کی وجہ سے سینے میں جکڑن پیدا ہوگئی ہے ایک میڈیکل سٹور سے کچھ گولیاں لیں اور یونیورسٹی ٹاون میں واقع فرنٹئر لینگویج انسٹیٹیوٹ کے  دفتر گیا جس کی بالائی منزل میں دو کمرے مناسب  کرایہ پر دستیاب ہوتے تھے۔ اس دنوں میں پشاور میں رات  کسی ہوٹل کی بجائے اسی جگہ گزارتا تھا جو شہر کے شور شرابے سے دور پرسکون جگہ تھی۔ یہاں ہمارے علاقے کا ایک لڑکا بطور چوکیدار کام کرتا تھا جس کی وجہ سے مجھے بڑی سہولت رہتی تھی۔


 میں کھانا اپنے ساتھ لے کر گیا اور چوکیدار سے کہا کہ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اس لیے آرام کروں گا اور موڈ ہوا تو رات کو کھانا  کسی وقت کھالوں گا۔ اوپر والی منزل میں دونوں کمرے خالی تھے ان میں سے ایک میں جاکر سونے کی کوشش کی لیکن سینے کی تکلیف بڑھتی گئی۔ یوں لگتا تھا جیسے میرے سینے کے درمیان میں چھرا گھونپا گیا ہو جو پیچھے پیٹھ کی طرف سے نکل گیا ہو۔ اس  درد کے دوران  ایک دو بار قے بھی آئی جس کے لیے میں واش روم گیا۔ پھر اچانک پورے جسم سے اتنے پسینے پھوٹ پڑے جیسے پانی کی بالٹی میرے جسم پر انڈیل دی گئی ہو۔ اتنی مقدار میں پسینہ دیکھ کر میں پریشان سا ہوگیا۔ 


اب مجھے تکلیف کے ساتھ ساتھ تشویش بھی ہونے لگی۔ میں کسی طرح سیڑھیاں اتر کر چوکیدار کے پاس گیا اور اسے رکشہ لانے کے لیے کہا۔ یونیورسٹی ٹاون سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم ایمرجنسی گئے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھے دراصل ہوا کیا ہے۔ میں  نے چوکیدار کو اپنی جیب میں موجود نقدی اور دیگر کاغذات دے کر  کہا کہ پشاور میں موجود میرے دوستوں  کو اطلاع دیدو۔ 


ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نےمیری کیفیت دیکھ کر مجھے ساتھ والے کمرے میں ای سی جی کروانے بھیجا۔ ای سی جی دیکھتے ہی ڈاکٹر نے ہسپتال کے ایک ملازم سےکہا مریض کو فورا سی سی یو (امراض قلب کے شعبے) پہنچاو۔ ملازم مجھے ویل چیئر پربٹھا کر راہداریوں پر تقریبا بھاگتے ہوئے لے جا رہا تھا۔ اس دوران اس نے ساتھ ساتھ بھاگتے چوکیدار سے پوچھا "مریض تمہارا کیا لگتا ہے؟" چوکیدار نے کہا "میرا گاوں والا ہے۔ " اس پر ملازم نے اسے کہا "بھائی ا ی ای سی جی خطرناک ہے"۔


 یہ گفتگو سنتے ہوئے میں مکمل ہوش میں تھا لیکن میں نے سوچا یا تو ای سی جی مشین خراب ہے یا ڈاکٹروں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا ای سی جی یا ممکنہ طور پر دل کی بیماری سے کیا لینا دینا۔ 


سی سی یو وارڈ میں ایک نمبر بستر خالی تھا ۔ مجھے بستر پرلٹا کر پیرامیڈیکل سٹاف نے میری قمیض اتاری لیکن وہ اس قدر جلدی  میں تھے کہ میری بنیان اتارنے کی بجائے اس کا اگلا حصہ نیچے سے اوپر قینچی سے کاٹ کر انہوں نے میرے سینے کے بال شیو کیے اور وہاں کٹورے چپکا کر مجھے آکسیجن کا ماسک چڑھایا اور پھر ڈرپ کے علاوہ کئی دوسرے انجکشن لگائے۔ اس کے بعد مجھے ہوش نہ رہا اور رات کے کسی پہر جب آنکھ کھلی تو دیکھا میرا چترالی  دوست فخرالدین میرے سرہانے بیٹھا ہوا ہے۔ 


اگلے دن مجھے دوسرے بستر پر منتقل کیا گیا ۔ مجھے بات  کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا اور کہا گیا کہ جو کچھ ضروری بات کہنی ہو وہ میں کاغذ پر لکھوں۔ اس دوران گاوں میرے بھائیوں اور رشتہ داروں کو اطلاع دی گئی تھی لیکن ان کے آنے سے پہلے نوشہرہ میں مقیم ماموں زاد بھائی محمد اقبال پہنچ چکے تھے۔ تیسرے دن درد سے کافی افاقہ ہوا تو ایک خاتون ڈاکٹر سے میں نے پوچھا "ڈاکٹر صاحبہ مجھے ہوا کیا تھا؟" اس نے کہ تمہیں ایم آئی ہوا تھا یعنی دل کا دورہ پڑا تھا لیکن شکر ہے تم بچ گئے ہو۔ میں بھی حیران  ،ڈاکٹر بھی حیران کہ یہ سب کیسے ہوا کیونکہ نہ میرا وزن زیادہ، نہ عمر زیادہ اور نہ مجھے کسی قسم کی ذہنی پریشانی تھی۔ 


میں پانچ دن ہسپتال میں رہا اور چھٹے دن مجھے گھر جانے کی اجازت دے  دی گئی لیکن ایک مہینہ بستر پر مکمل آرام کرنے کو کہا گیا اور پانچ قسم کی گولیاں مستقل طور پر استعمال کرنے کو کہا۔ اس دوران کانفرنس منتظمین کو میں نے ساری صورت حال  ای میل کے زریعے بتائی۔ انہوں  نے افسوس کا اظہار کیا لیکن مجھےجلد از جلد کسی ڈاکٹر سے رائے لے کر کوئی فیصلہ کرنے کو کہا کہ میں کانفرنس میں شرکت کرسکوں گا کہ نہیں۔ جب اٹھارہ دن بعد میں نے اندازہ لگایا کہ میں اب اذادانہ چل پھر سکتا ہوں تو یہ بات یقینی کرنے کے لیے کہ میں ہوائی سفر کر سکتا ہوں کہ نہیں پشاور جاکر اسی ہسپتال سے رجوع کیا جہاں زیر علاج تھا۔ انہوں نےقبل از وقت ٹیسٹ کروانے سے انکار کیا تو اپنے دوست طالب جان آباسندھی کے مشورے اور راہنمائی میں امراض قلب کے ایک نجی ہسپتال میں ٹیسٹس کروانے گیا جن کی روشنی میں مجھے ہوائی سفر کرنے کی اجازت مل گئی۔  

(جاری ہے)

Post a Comment

0 Comments