دو طرح کے انسان۔

Sorry to say
کہتے ہیں کہ اس موجودہ دنیا میں دو قسم کے انسان بستے ہیں. پہلی قسم کے انسانوں نے محنت کر کے ذہن لڑا کر آج سے 31 سال پہلے 1968ء  میں چاند پر قدم رکھا اور ایسے آلات لگا دیئے جن سے ہر وقت چاند کی حرکات کا پتہ چل جاتا ہے کہ چندہ ماما اس وقت کس لوکیشن پر ہے.
جبکہ دوسری قسم کے انسان ہم ہیں. ہم ایک دو دن میں پھر دوربین لے کر اسی چاند کو ڈھونڈنے نکلیں گے اور آپس میں لڑیں گے. کسی کو نظر آئے گا کوئی محروم رہے گا. جب دیگر شرعی معاملات میں ہم سائنسی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جیسے گھڑی دیکھ کر روزہ رکھتے ہیں اور گھڑی دیکھ کر افطار. حالانکہ شرعت کی رو سے وقت ماپنے کا اپنا طریقہ ہے کیونکہ گھڑی بھی دیگر سائنسی ایجادات کی طرح بہت بعد کی ایجاد ہے. تو اس چھوٹی سی بات کو ہم کیوں آنا کا مسئلہ بنا رہے ہیں. دنیا کے دیگر ممالک میں تو یہی سائنسی طریقہ اپنایا گیا ہے. کیا وہاں مسلمان نہیں رہتے صرف ہم نے بات بات پر اختلاف و انتشار کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے. کیا ہم باقی مسلمانوں کے امام ہیں جو ہر فرقہ اور ہر فتنہ یہاں سے اٹھتا ہے اور یہی سے آپریٹ ہوتا ہے

منظور۔۔

Post a Comment

0 Comments