یونیورسٹی کے زمانے کی ایک تصویر میموری میں نظر سے گزری. وہ وقت وہ لمحات سامنے آنے لگے. چونکہ طبیعت ماضی پرست نہیں حال اور مستقبل پر نظریں مرکوز ہوتی ہیں تو سوچنے لگے کہ اُس سوٹڈ بوٹڈ زندگی سے یہ میلی کچلی زندگی ہزار درجہ بہتر ہے. کیونکہ تب dependend تھے. روپے روپے کا انحصار دوسروں پر تھا. اب independent ہیں. محنت مزدوری کر کے خود کما کر اپنی مرضی سے خرچ بھی کر رہے ہیں. بنیادی انسانی ضروریات تقریباً پوری ہو گئی ہیں. رہی خواہشات تو وہ تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں.
چاہتا ہوں کہ اپنے جیسے نیچلے درجے(lower class) کے خاندانوں کے ہر لڑکے لڑکی اور اس کے والدین تک یہ پیغام پہنچاؤں کہ اپنے بچوں کو کم عمری میں شادی منگی کے لانجوں میں پھنسانے یا صرف ڈاکٹر انجنئیر بنانے کے خواب دکھانے کی غرض سے تعلیم دلانے کی بجائے انہیں مالی طور پر مستحکم کریں. اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے موٹے کاروبار میں مصروف رکھیں یا ہنر مند بنائیں. وہ اپنی زندگی کسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سے بہتر انداز میں گزار سکیں گے. ہاں تعلیم اگر صرف نوکری کے حصول کی بجائے شعور و آگہی کے لئے دلا دی جائے تو اس سے بہتر کچھ نہیں. میں نے بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز کو دس پندرہ ہزار کی نوکری کی تلاش میں فائلیں لے کر دفتر دفتر خوار ہوتے دیکھا ہے(ذاتی تجربہ بھی رہا ہے) لیکن ایک ٹماٹر کی ریڑھی لگانے والے اور مستری ترکان کو زیادہ آسودہ حال دیکھا ہے. انسانوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں جتنی ضرورت ڈاکٹر انجنئیر کی پڑتی اس سے کئی گنا زیادہ ایک دکاندار، ڈرائیور، ترکان، مستری، ہوٹل والے، نائی، موبائل بنانے والے، کنسٹرکشن والے، بجلی بنانے والے، پائپ لائن بچھانے والے بلکہ گٹر صاف کرنے والے کی ہے
منظور۔۔
0 Comments