اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میری بیوی (بانو قدسیہ) یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی، میں ہر روز گاڑی میں اسے چھوڑنے یونیورسٹی جاتا، یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ کر گاڑی سے اترتا اور دوسری طرف سے آکر دروازہ کھولتا، میری بیوی (بانو قدسیہ ) اترتی اور سہیلیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہو جاتی۔ پھر چھٹی کے ٹائم دوبارہ بیوی (بانو قدسیہ ) کو لینے آتا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر واپس گھر لے آتا۔ میری بیوی کی سہیلیاں ہر روز یہ منظر دیکھتیں اور کہتیں کہ ان کے درمیان کتنی محبت اور چاہت ہے۔ وہ دعا کرتیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ایسا ہی شوہر دے۔
یہ پریکٹس ہر روز جاری رہتی، میں شاہی نوکر کی طرح دروازہ کھولتا اور میری بیوی شہزادی کی طرح اتر کر یونیورسٹی میں داخل ہوتی اور اس کی سہیلیاں حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر اپنے لیۓ بھی ایسے ہی خاوند کی دعائیں کرتیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ درحقیقت ہمارے درمیان کوئی ایسی ویسی محبت نہیں تھی، دراصل ہماری گاڑی کا دروازہ خراب تھا جو اندر سے نہیں کھلتا تھا اس لئے مجھے اتر کر باہر سے کھولنا پڑتا تھا.
0 Comments