Longest bridge in the world


دنیا کا سب سے لمبا پل۔۔

ہانگ کانگ ۔ ژوہائی ۔ مکاوٗ برج کی تعمیر اکتوبر 2018 میں مکمل ہوئی۔ یہ اس وقت سمندر کے اوپر بننے والا دنیا کا سب سے لمبا پُل ہے۔ اس کی لمبائی 55 کلومیٹر ہے، دیکھنے میں متاثر کن ہے اور اس کا سٹرکچر انجنئیرنگ کا ایک شاہکار ہے۔ اس کا مقصد ہانگ کانگ کو مکاوؐ اور ژوہائی سے جوڑنا ہے اور یہ سفر اب اس پل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ 

اس کے ڈیزائن میں سالانہ آنے والے طوفانوں کے موسم، کبھی کبھار آنے والے زلزلے اور سمندر کی لہروں میں اتنے بڑے سٹرکچر کو محفوظ رکھنا چیلنج تھا۔ اور اس کو 120 سال کی مدت تک رہنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا۔ اس کے درمیان سے پانچ بحری راستے گزرتے ہیں۔ ہانگ کانگ ائیر پورٹ کو مدِ نظر رکھنا تھا اور مقامی سمندری زندگی کو بھی۔ چینی سفید ڈولفن جیسے آبی جانوروں کے لئے یہ اہم جگہ ہے۔ اس کی تعمیر کے دوران اور تعمیر کے بعد یہاں کا ایکوسسٹم متاثر نہ ہو۔ سمندر پر پل بنانے میں ایک مسئلہ تو ہمیشہ ہوتا ہی ہے کہ اس کے ستونوں کی بنیاد خشکی پر نہیں ہوتی۔ پانی کے نیچے ہوتی ہے اور ایک مستحکم بنیاد ضروری ہے۔ اس لئے خشکی پر لمبے پُل بنانا پانی کے مقابلے میں آسان ہے۔ سمندر کے نیچے کی تہہ میں آبی ڈیپازٹ اچھی بنیاد نہیں دیتے۔ اس کے ستونوں کو سپورٹ دینے لئے پانی کی نیچے لمبے کھمبے ڈالے گئے جو سیڈیمنٹ کے نیچے تک پہنچیں۔ اس کے نیچے ان کھمبوں کی چوڑائی پونے تین میٹر ہے اور لمبے کھمبے تین سو میٹر تک بھی ہے۔ ان کو ڈال کر ان کے اوپر کنکریٹ کی کیپ چڑھائی گئی جو سمندر کی تہہ سے نیچے تھی۔ اس سے وہ بنیاد بنی جس پر ستون کھڑا ہو سکیں۔ اگر ستونوں کی تعداد زیادہ ہو تو آبی زندگی متاثر ہو گی۔ اس کو کم سے کم رکھنے کے لئے لمبے سپین ڈیزائن کئے گئے۔ زیادہ جگہ پر ستونوں کا درمیانی فاصلہ ایک سو اسی میٹر ہے۔ 

جن پانچ راستوں سے بحری جہازوں نے گزرنا تھا، ان میں سے تین پر فولادی تاروں سے سہارا دینے والا ڈیزائن ہے جو عظیم سائز کے ٹاوروں پر کھڑا ہے اور یہاں پر اتنی جگہ بن جاتی ہے کہ بحری جہاز گزر سکیں۔ دو راستوں پر یہ آپشن نہیں تھی کیونکہ یہ قریب ہانگ کانگ کے ائیرپورٹ کے جہازوں کے لئے یہ خطرہ ہو سکتے تھے۔ اس کا حل سمندر کے نیچے پل بنا کر نکالا گیا۔ پونے سات کلومیٹر یہ سڑک ایک سرنگ ہے جس کے دونوں اطراف میں مصنوعی جزیرے ہیں۔ یہاں سے سرنگ سمندر کے نیچے چلی جاتی ہے۔ اس سے ہوائی اور بحری راستوں کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن ایک اور مسئلہ سمندری زندگی کا آ گیا۔ مصنوعی جزہرہ بنانے کے لئے سمندری کی تہہ سے مٹی اور کیچڑ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی جگہ پر ریت ڈالنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد سمندری دیوار بنانا ہوتی ہے اور آخر میں اس دیوار کو اندر سے بھر دیا جاتا ہے۔ لیکن کیچڑ اٹھانے کا عمل پانی کو سیڈیمنٹ کی وجہ سے گدلا کر دیتا ہے۔ اس میں نامیاتی اور غذائی مادہ ہوتا ہے جو زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کے پراجیکٹس میں سمندری زندگی کو نقصان پہنچا تھا۔ چین میں سفید ڈولفن بھی اس میں متاثر ہو سکتی تھی۔ اس کے لئے نئی تکنیک استعمال کی گئی۔ پہلے پتھروں کا کالم مٹی کے اوپر بنایا گیا۔ سمندر کی تہہ میں سٹیل کے کھوکھلے سلنڈر ڈالے گئے جن مں سے ہر ایک کا قطر 30 میٹر تھا اور اس سے ایک مسلسل سمندری دیورا بن گئی جس پر مصنوعی جزیرہ بنایا جا سکتا تھا۔ سرنگ پہلے سے 33 الگ ٹکڑوں کی صورت میں بنائی گئی اور ان ٹکڑوں کو سمندر کے نیچے نصب کر کے جوڑ کر تعمیر مکمل کی گئی۔ 

اس معمے کا آخری ٹکڑا یہ سرنگ تھی۔ اس کے مکمل ہونے کے بعد اس شاہکار کو ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا۔ نو سال میں مکمل ہونے والے اس پراجیکٹ کی تعمیر پر آنے والی لاگت ایک کھرب ستائیس ارب یوآن (ستائیس کھرب پاکستانی روپے) تھی۔“

Post a Comment

0 Comments