دنیا میں شکار کے مختلف طریقے ہیں، کبھی شکار جال لگا کے کیے جاتے ہیں۔ اور کبھی تیروں کے ساتھ۔ کبھی پانی میں اترنا پڑتا ہے اور کبھی جہازوں میں سفر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح کا شکار ہو اس کو پکڑنے کا طریقہ بھی اس کے مطابق ہوتا ہے۔
بھارت میں بندروں کے شکاری بندر پکڑنے کے لیے ایک خاص قسم کا صندوق استعمال کرتے ہیں۔ جس کے اوپر والے ڈھکنے میں ایک کُھلا سوراخ ہوتا ہے جو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ایک بندر اس میں اپنا ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ شکاری اس صندوق میں اخروٹ رکھتے ہیں۔ بندر سوراخ سے ہاتھ صندوق کے اندر ڈال کر اخروٹوں سے مٹھی بھر لیتا ہے۔ اب وہ مٹھی کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوراخ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں سے صرف کُھلا ہاتھ ہی آرام سے نکل سکتا ہے، بند مٹھی نہیں۔
بندر کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ یا تو اخروٹ مٹھی سے نکال کر ہمیشہ کےلیے آزاد ہو جائے یا اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھے اور شکاری کا شکار ہو جائے۔ اب آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ بندر ہر مرتبہ کیا کرتا ہے؟ آپ نے درست اندازہ لگایا ہے۔ وہ اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھتا ہے اور نتیجے کے طور پر شکاری اس کو آسانی سے پکڑ لیتا ہے۔
ہم انسان زیادہ تر ان بندروں سے مختلف نہیں ہیں۔ ہم اُن اخروٹوں کو پکڑے رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ہم زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ہم مسلسل یہ جواز تراشتے رہتے ہیں کہ ہم یہ کام اس وجہ سے نہیں کر سکے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ”کہ“ کے بعد ہمیشہ اخروٹ ہوتے ہیں ، جنہیں پکڑے رکھنے کی وجہ سے ہم ترقی اور کامیابی سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔
0 Comments