ہل۔



 ہل

تصور کیجئے کہ کوئی بڑی تباہی آ گئی ہے۔ کوئی وبا، کوئی جنگ، قاتل روبوٹ یا کچھ اور۔ انسانی تہذیب کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ آپ بچنے والے چند خوش قسمتوں میں سے ہیں۔ فون جیسی اشیاء تو اب بے کار ہیں۔ نہ انٹرنیٹ ہے، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ زندگی قائم رکھنے اور نئی تہذیب شروع کرنے کے لئے کونسی ایجاد ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ 


جس ایجاد کی آپ کو ضرورت ہے، وہ ہل ہے۔ یہی وہ ایجاد ہے جس نے ہماری تہذیب کا سنگِ بنیاد رکھا تھا اور جدید دنیا کو ممکن بنایا تھا۔ اپنی آسانیوں اور پریشانیوں سمیت۔ اچھی اور وافر غذا، انٹرنیٹ پر سرچ، صاف اور محفوظ پانی، ویڈیو گیمز کے ساتھ ساتھ ہوا اور پانی کی آلودگی، فراڈیوں کی سکیمیں، صبح سے رات تک ملازمت کی مشقت یا پھر بے روزگاری ۔۔۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جدید تہٰذیب بغیر ہل کے قائم نہیں ہو سکتی تھی۔


آخری برفانی دور کے بعد دنیا سرد دور سے واپس ابھر رہی تھی۔ موسم گرم اور خشک ہو رہا تھا۔ خانہ بدوش قبائل، جو پہاڑوں اور اونچی جگہوں رہتے تھے، انہیں شکار اور خوراک کا مسئلہ تھا۔ ان کے قریب جانور اور پورے مر رہے تھے۔ جانور دریائی وادیوں کی طرف ہجرت رک رہے تھے۔ اور انسان بھی ان کے ساتھ ہی جا رہے تھے۔ یہ نقل و حرکت کئی جگہوں پر جاری تھی۔ مغربی یوریشیا میں گیارہ ہزار سال پہلے، برِصغیر اور چین میں دس ہزار سال پہلے، میسوامریکہ میں اور اینڈیز میں آٹھ ہزار سال پہلے۔ ہر جگہ پر ایسا ہوا تھا۔


زرخیز دریائی وادیوں کی زمین زیادہ نہیں تھی۔ یہاں پر گھوم پھر کر زیادہ خوراک دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ایک اور طریقہ مقامی پودوں کی حوصلہ افزائی تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مٹی کی سطح کو توڑا جائے جس سے زمین کی غذائیت سطح پر آ جائے اور نمی گہرائی تک پہنچ سکے، سورج کی تمازت سے دور ہو سکے۔ شروع میں ہاتھ میں پکڑی نوکیلی چھڑیوں سے یہ کام کیا گیا اور یہاں سے یہ ہل میں بدل گیا۔ ابتدائی ہل سادہ سکریچ ہل یا آرڈ تھا۔ اس کو پہلے جسمانی طاقت سے کھینچا جاتا تھا۔ بعد میں بیل کی مدد حاصل کی جانے لگی۔ یہ زبردست کام کرتا تھا۔


زراعت خوراک کی فراوانی لے کر آئی۔ دو ہزار سال پہلے رومی سلطنت میں، نو ہزار سال پہلے سانگ خاندان کے چین میں۔ یہ کسان اپنے سے پہلے والوں کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ خوراک حاصل کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ آبادی کا پانچواں حصہ سب کے لئے خوراک اگا سکتا تھا۔ باقی لوگوں نے کیا کیا؟ نانبائی، لکڑہارے، معمار، کان کن، دھات ساز، سڑکوں، شہروں اور تہذیب کی تعمیر جیسے پیشے آ گئے۔ 


اور یہاں پر ایک بڑا تضاد تھا۔

بہتات کا مطلب مقابلہ بازی تھا۔ جب ہر کسی کو اپنے کھانے کی فکر خود کرنی تھی اور اضافی اشیاء نہیں تھیں تو ہر کوئی برابر تھا۔ طاقتور کمزور سے کچھ چھین ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اگر عام لوگ زیادہ پیداوار دے سکتے ہیں تو پھر یہ چھینی بھی جا سکتی ہے۔ زراعت نے حکمران پیدا کئے اور محکوم۔ آقا اور غلام۔ وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات۔ انتظامیہ آئی۔ ابتدائی زرعی معاشرے حیران کن حد تک عدم مساوات کا شکار تھے۔ رومن سلطنت عدم مساوات کی بائیولوجیکل حد پر تھی۔ یعنی اگر امیر کچھ مزید امیر ہوتے تو زیادہ تر لوگ فاقہ زدگی سے مر جاتے۔


ہل نے نہ صرف تہذیب کو جنم دیا بلکہ مختلف اقسام کے ہل نے مختلف اقسام کی تہذیب کو جنم دیا۔


پہلے سادہ آرڈ ہل ہزاروں سال تک استعمال کئے جاتے رہے۔ یہ بحیرہ روم تک پھیل گئے۔ یہ خشک اور پتھریلی زمین پر آئیڈیل تھے۔ لیکن مشرق میں چین میں ایک بہت مختلف قسم کا ہل ایجاد ہوا۔ یہ مولڈبورڈ ہل تھا۔ یہ مٹی پر لمبا اور موٹا کٹ لگاتا تھا اور مٹی کو الٹا دیتا تھا۔ خشک زمین پر ایسا کرنا مضر تھا کیونکہ اس سے مٹی کی نمی اڑ جاتی لیکن نم مٹی میں مولڈ بورڈ ہل بہت مفید تھا۔ یہ نکاس کو بھی بہتر کر دیتا تھا اور گہری جڑ والی جڑی بوٹیوں کو مار دیتا تھا۔ یہ جڑی بوٹیاں فصل کا مقابلہ کرنے کے بجائے کھاد بن جاتی تھیں۔


اس نے نم مٹی والے علاقوں کی زرخیزی میں اضافہ کر دیا۔ یہ شمالی یورپ پہنچا اور اس کی مشکل زمین جنوبی یورپ سے زیادہ خوراک اگلنے لگی۔ اس ہل کی وجہ سے آنے والی خوشحالی کی وجہ سے ایک ہزار سال پہلے شمالی یورپ میں شہر ابھرنے لگے۔ 


خشک زمین والے ہل کو چلانے کے لئے ایک کسان اور اس کا بیل کافی تھا۔ کسان اپنے مویشیوں اور زمین کے ساتھ گزارا کر سکتے تھے لیکن مولڈبورڈ کو گیلی مٹی میں چلانے کے لئے ٹیم درکار تھی۔ کئی بار آٹھ بیل یا گھوڑے۔ اس وجہ سے ان علاقوں میں یہ کمیونیٹی کا پیشہ بن گیا۔ ہر ایک کو محنت اور جانور دوسروں سے شئیر کرنے ہوتے۔ جس کے لئے آپسی جھگڑے حل کرنا ضروری تھا۔ اس نے اجتماعی طرزِ زندگی اور پھر قانون نافذ کرنے والے مینوریل سسٹم کو جنم دیا۔


ہل نے خاندانی زندگی بھی بدل دی۔ یہ بھاری آلہ تھا۔ اس معاملے میں مردوں کو خواتین پر ایڈوانٹیج تھا۔ ہل چلانا مرد کا کام بن گیا۔ شکاری کسان ہو گئے۔ دوسری طرف چاول یا گندم کو تیار خوراک کی صورت میں لانا بھی میووں اور پھلوں کی تیار غذا کی نسبت محنت طلب کام تھا۔ یہ کام خواتین کے پاس آیا۔ اس وقت ہمیں خواتین اور مردوں کے ڈھانچوں میں ہونے والی شکست و ریخت میں فرق نمایاں نظر آتے ہیں۔ نو ہزار سال پہلے کی خواتین میں غلہ پیسنے کی وجہ سے پیروں اور گھٹنوں پر آرتھرائٹس ملتا ہے۔ مردوں کی کمر کی ہڈیوں سے ہل چلانے کی مشقت کا پتا لگتا ہے۔ 


ہل نے سب کچھ بدل دیا۔ اس سے کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ ایجاد اچھا آئیڈیا تھا؟ یہ سوال اس وجہ سے نہیں کہ یہ وہ کام نہیں کرتی جس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہ ایجاد اپنا کام بہترین طریقے سے سرانجام دیتی ہے۔ اس کے بغیر تہذیب نہ ہوتی۔ لیکن اس سے ہونے والے سماجی اثرات؟ جبر اور ظلم؟ کسانوں کی صحت خانہ بدوش قبائل سے خراب تھی۔ چاول اور غلے کی خوراک میں وٹامن، آئرن اور پروٹین کی کمی تھی۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جب معاشرے زرعی معاشروں میں تبدیل ہوئے تو مرد اور خواتین کے اوسط قد میں چھ انچ تک کمی ہوئی۔ طفیلی کیڑے، بیماریاں، وبائیں، خوراک میں تنوع کی کمی اس کا نتیجہ تھی۔ ایک مورخ نے اسے “انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی” لکھا ہے۔


لیکن پھر زراعت اتنی جلد پھیل کیوں گئی؟ خوراک کی فراوانی نے بڑی آبادی کو سپورٹ کیا۔ اور پھر نہ صرف معماروں، ہنرمندوں اور راہبوں کو، بلکہ فوجیوں کو بھی۔ لڑنے والوں نے جلد ہی خانہ بدوش قبائل کو اچھی اور پسندیدہ زمینوں سے نکال دیا۔ کسانوں نے خانہ بدوش قبائل کے علاقے چھین لئے۔ منظم آبادکاروں کے سامنے قدیم طرزِ زندگی والوں کا مقابلہ نہیں تھا۔ ہمیشہ سے برتر ٹیکنالوجی والی تہذیب حاوی ہوتی آئی ہے۔ دوسرے کو ختم کر کے، خود میں ضم کر کے یا دوسروں کے طرزِ زندگی پر اثرانداز ہو کر۔ 


آج بھی جو خانہ بدوش قبائل بچے ہیں، ان کی خوارک صحت مند ہے۔ کالاہاری کے قبائلی سے جب پوچھا گیا کہ ان کے قبیلے نے دوسروں کی طرح ہل کیوں نہیں اٹھایا تو اس نے جواب دیا، “آخر کیوں؟ یہ محنت کس لئے؟ ہر طرف تو مونگونگو کے میوے بکھرے پڑے ہیں”۔ 


اور یہ ہمیں ایک اور تضاد کا بتاتا ہے۔ وسائل سے بھری جگہوں والے جلد خوشحالی میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ وسائل کی تنگی میں محنت مجبوری بن جاتی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تو اب یہ سوال آپ کے لئے۔ تہذیب کے خاتمے پر آپ چند زندہ رہ جانے والوں میں سے ہیں۔ آپ کے پاس انتخاب ہے۔ کیا آپ ہل ایجاد کریں گے اور یہ سب چکر دوبارہ شروع کریں گے؟ یا پھر اپنے جنگلی میوے چننے پر اکتفا کریں گے؟



تحریر: وہارا امباکر 



 


Post a Comment

0 Comments