ایٹمی بٹن۔ Nuclear Botton


یہ نیوکلیئر بٹن کیا چیز ہے ؟
کیا واقع میں ہی ایٹمی حملے کے لئے کوئی بٹن ہوتا ہے
______________________________________________

کیم جون : نیوکلیئر بم کا بٹن ہر وقت میری ٹیبل کے نیچے ہوتا ہے

ڈونلوڈ ٹرمپ : میرے پاس بھی تم سے زیادہ بڑا اور طاقتور نیوکلیئر بٹن ہے اور یہ بٹن کام بھی کرتا ہے !!

خیر بحث جو بھی ہو یہ تو سچ ہے کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے انڈیا ،پاکستان ،امریکہ ،چین اور شمالی کوریا سمیت  9 ممالک اس ڈور میں شامل ہیں

لیکن یہ نیوکلیئر بٹن کیا بلا ہے ؟
کیا سچ میں کیم جون یا ٹرمپ کے میز کے نیچے یا پھر کسی دوسرے ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک کے سربراہ کے پاس ایسا کوئی بٹن ہوتا ہے ؟
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ ایٹمی بٹن واقع میں کوئی بٹن ہوتا ہے جیسے دبانے سے ایٹم بم چل جاتا ہے تو آپ کا یہ خیال بلکل غلط ہے
بلکہ
 ایٹمی حملے کی اجازت دینے یا ایٹمی حملہ کرنے کا حکم دینے کو  " نیوکلیئر بٹن "کہا جاتا ہے !
جب بھی نیوکلیئر بٹن دبانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ایٹمی حملے کا حکم دینا ۔سب ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ایک ادارہ بنایا جاتا ہے اور اس ایٹمی ادارے کی سربراہی ایک فرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے زیادہ تر ممالک میں یہ فرد وہاں کا ایلیکٹڈ بندہ یعنی صدر یا وزیراعظم ہوتا ہے  ایٹمی ہتھیاروں کے ایسے ادارے کو ایٹمی بٹن یا نیوکلیئر بٹن کہا جاتا ہے ۔

چلئے  جانتے ہیں مختلف ممالک کے ایٹمی بٹنز کے بارے اور جانتے ہیں کہ وہاں نیوکلیئر بٹن دبانے کا احتیار کس کے پاس ہوتا ہے ۔

امریکہ :
امریکہ میں نیوکلیئر بٹن کا احتیار وہاں کے صدر کے پاس ہوتا ہے ۔اس کے لئے اسے فٹبال اور بسکٹ  کی ضرور پڑتی ہے ۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ فٹبال اور بسکٹ کا ایٹم بم سے کیا تعلق ؟ دراصل ایٹمی بٹن کی طرح یہ دو نام بھی کسی کوڈ کی طرح ہیں امریکہ میں ایک بریفکیس میں ایٹمی حملے کا پورا مڈیول ہوتا ہے  امریکی صدر جہاں جاتا ہے اس کے ساتھ یہ بریفکیس بھی جاتا ہے اسی بریفکیس کو فٹبال کہا جاتا ہے
اس بریفکیس میں ایٹمی حملہ کرنے کی راہنمائی و حکم نامہ اور جن جگہوں کو نشانہ بنانا ہے اس سے متعلق معلومات بھی اس بریفکیس میں ہوتی ہے ۔
ایٹمی حملہ کرنے سے پہلے صدر کو ایک کوڈ سے اپنی پہچان کروانا ہوتی ہے جو کہ ایک کارڈ ہر درج ہوتا ہے جیسے بسکٹ کہا جاتا ہے ۔

پاکستان :

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایٹمی حملے کا احتیار آرمی چیف کے پاس ہوتا ہے جو کہ بلکل غلط ہے بلکہ پاکستان میں ایٹمی حملہ کرنے کا حکم وزیراعظم دیتا ہے جس کی راہنمائی مسلح افواج کے تینوں سربراہان اور پاکستان کا وزیر دفاع کرتا ہے

انڈیا :
انڈیا میں ایٹمی حملے کا طریقہ کار بھی بلکل پاکستان کے جیسا ہے

چین :
چین میں ایٹمی بٹن چین کا صدر ہوتا ہے لیکن یہاں ایٹمی حملہ کرنے سے پہلے افواج کے سربراہان اور وزیر دفاع کے ساتھ جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اس پارٹی کے لوگ بھی صدر کی راہنمائی کرتے ہیں اور ایٹمی حملے کی میٹنگ  میں شامل ہوتے ہیں

شمالی کوریا :
شمالی کوریا میں ایٹمی بٹن واقع میں ہی کیم جون خود ہے جو بنا کسی سے صلاح لیے فوج کو کسی بھی وقت ایٹمی حملے کا حکم دے سکتا ہے لیکن اگر ملک کی بات کی جائے تو وہاں ڈیکٹیٹرشپ ہے اس لئے وہاں کے آرمی چیف کے پاس یہ احتیار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا بہت زیادہ عالمی پابندیاں لگی ہوئی ہیں

اس کے علاوہ باقی ممالک جن میں روس ،ڈنمارک وغیرہ ہیں وہاں ان کے سربراہ کو ہی ایٹمی بٹن کہا جاتا ہے

تحریر۔ حسن خیل چیمہ۔

Post a Comment

0 Comments