کون کہتا ہے کہ ذہانت صرف انسان کی میراث ہے؟؟


سن انیس سو بتیس میں آسٹریلوی فوج نے ایمو نامی پرندوں کی آبادی کے خلاف اعلان جنگ کیا کیونکہ ذرا بدنما نظر آنے والے یہ پرندے فصلوں کو برباد کر رہے تھے اور بہت سے لوگوں کے لئے درد سر بنے ہوئے تھے - ٹینکوں اور مشین گنز سے مسلح سپاہی متاثرہ علاقوں میں بھیج دیئے گئے –
۔
ہر شخص یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گذشتہ بیس لاکھ سالوں میں ایمو نامی یہ پرندے جن کیچڑ زدہ علاقوں کے عادی ہو چکے تھے وہاں ہتھیار کارگر ثابت نہ ہوسکے- اس سے بھی کہیں زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ایمو نامی ان پرندوں نے گوریلا حربوں، دشمن کو گھیرے میں لینے جیسی چالوں اور بکھرنے اور دوبارہ اکھٹے ہونے جیسے حربوں سے متعلق گہری فراست کا مظاہرہ کیا –
۔
بروز آٹھ نومبر، آسٹریلیا کے وزیر دفاع جارج پرس نے فوجیوں کے مکمل انخلاء کا حکم نامہ جاری کیا اس طرح باقاعدہ اور موثر طریقے سے انسان پر ایموز کی فتح تسلیم کرلی گئی –
۔
میجر جی- پی- ڈبلیو میرڈ تھ (جو کہ اس مہم کی قیادت کر رہے تھے ) نے بعد میں یہ بیان جاری کیا کہ اگر آسٹریلیا کے پاس ایسی فوج ہو جوکہ اس پرندے کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو یہ فوج دنیا کی کسی بھی فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گی---- یہ (ایمو نامی پرندے) زخمی ہوئے بغیر ٹینکوں کی طرح مشین گنز کا سامنا کر سکتے ہیں-
۔
ایمو نامی ان پرندوں کے خلاف دوسری عسکری مہم زیادہ کامیاب ثابت ہوئی مگر اس کے باوجود کسانوں کو سن انیس سو چونتیس ، انیس سو تینتالیس اور انیس سو اڑتالیس میں ان پرندوں کے خلاف حکومت سے مدد کی درخواست کرنے پر مجبور ہونا پڑا مگر حکومت کی جانب سے اس بار ان درخواستوں کی کوئی خاطر خواہ شنوائی نا ہوسکی –
۔
موجودہ دور میں آسٹریلیا بھر میں ایموز کی تعداد تقریبا سات لاکھ ہے – ہمیں ایمو نامی ان پرندوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا چاہئے کیونکہ بہرحال ہم انسان ان سےایک جنگ ہارے ہیں-

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کی جانب سے شائع کردہ ریسرچ پیپر "انسان، جنگ وجدل اور حیوانی جبلتیں " سے ماخوذ شدہ ---
۔

Post a Comment

0 Comments