پھوٹی کوڑی۔۔


پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔
3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔
علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں پھوٹی کوڑی کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
قدیم زمانے میں کوڑیوں سے ایک کھیل بھی کھیلا جاتا ہے اور جو بہت مشہور تھا۔
یعنی چوپٹ کہا جاتا تھا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور گیم پچیسی بھی تھا جو لوڈو کی طرز پر کھیلا جاتا ہے۔
ان دنوں کھیلوں میں کوڑیاں بطور ڈائس یا لوڈو کے دانے چھکے استعمال ہوتی تھیں۔
ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت میں بھی اس کھیل کا تذکرہ موجود ہے۔
مہابھارت کے دو کردار یودشٹر اور دریودھن اس کھیل کے ماہر بتائے جاتے ہیں۔
سیپ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے سائز میں پائی جاتی ہیں۔
سب سے بڑا سائز بطور سنکھ استعمال ہوتا ہے۔
ہندو برادری میں سنکھ بجانا صدیوں پرانی روایات کا حصہ شمار ہوتا ہے۔
گزرے زمانے میں کرکٹ اسٹیڈیم میں لوگ میچ دیکھنے جاتے تو اکثر اپنے ساتھ سنکھ لے جاتے اور پسندیدہ کھلاڑی یا ٹیم کی اچھی کارکردگی پر اسے بجایا جاتا تھا۔
یہ شور نوجوانوں کے جوش کو بڑھاتا تھا تو ٹیموں اور کھلاڑیوں کے لئے سنکھ کی آوازیں حوصلہ مندی اور دیکھنے والوں کی طرف سے بھرپور داد ملنے کی علامت ہوا کرتی تھیں۔

اب وہ دور نہیں رہا۔
یوں تو سیپوں سے بنی چیزیں مختلف چیزیں مثلاً ڈیکوریشن آئٹمز،
ہار بندے،
چوڑیاں،
مالائیں،
فوٹو فریم،
ہیرپن اور اس جیسے انگنت آئٹمز بنائے اور بیچے جاتے ہیں مگر ان کے بیچنے اور خریدنے والے کم ہوتے ہوتے صرف ساحل تک ہی محدوو ہوگئے ہیں۔
کوڑی دراصل سمندر کے کیڑوں کے چھوٹے چھوٹے خول ہوتے ہیں-
ایک قسم کا چھوٹا صدف جو کسی زمانے میں خرید و فروخت کے سلسلے میں سکے کا کام دیتا تھا،
دیہی زیورات میں بھی مستعمل۔
پرانے زمانے میں ان کوڑیوں سے لوگ بیل،
بھینسوں بھیڑ ،بکریوں اور اونٹوں کے گلے کا ھار اور پاوں کی بسندیاں بناتے تھے۔
ان کوڑیوں کو لیدر کے بیلٹ کے اوپر مختلف ڈیزائنیوں جوڑتے تھے اور ان کے ساتھ چھوٹے بڑے گھنگرو بھی لگاتے تھے۔
جانوروں کے شوقین حضرات ان جانوروں کو ان چیزوں سے خوب سجا کر فخر محسوس کرتے تھے ۔

یہ کوڑی دراصل Monetaria moneta نامی سمندری گھونگے کا شیل ہوتا ہے-
جو عام طور پر سمندری چٹانوں سے چپکا ہوتا ہے-
کوڑیاں آجکل بھی زیورات اور آرائشی اشیا بنانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں-
اس کے علاوہ یہ مختلف حکیمی نسخہ جات میں بھی استعمال کی جاتی ہیں-
حکیم حضرات ان کا کشتہ بھی تیار کرتے ہیں-
عام طور پر طب میں اس کو فارسی نام خر مہرہ سے جانا جاتا ہے-
اس کی پیٹھ پر دانے سے ہوتے ہیں یہ سفید اورپیلی رنگت میں ہوتی ہے۔
اور بطور دوا پیلی کوڈی استعمال ہوتی ہے اس کا ذائقہ بدمزہ اور پھیکا ہوتاہے۔
استعمال بیرونی۔
مجفف اور مسخن ہونے کی وجہ سے ضماد کرنے سے اعضاء کی رطوبت کو خشک کرتی ہے اورام بلغمی کو تحلیل کرتی ہے۔
جالی اور مقطع ہونے کی وجہ سے بیاض چشم کو دورکرتی ہے اور جلد کے نشانات کو زائل کرتی ہے۔
مجفف ہونے کی وجہ سے عروق چشم کوبھی فائدہ پہنچاتی ہے۔
جب کان بہتاہو تو زرد کوڑی جلاکر اس کی رکھ کان میں نلکی کے ذریعے ڈالیں۔
اوپر سے لیموں کا رس ڈالیں تو جوش پیداہوکر کان صاف ہوجاتاہے۔
زرد کوڑی سرکہ میں تین روز بھگو کر خشک کرکے پانی میں گھس کر مہاسوں پر لگانا لیموں کے رس میں گھس کی مہاسوں پر لگانا بھی مفیدہے۔
 کشتہ خر مہرہ
افعال و خواص اور محل استعمال حمیّاتِ مرکبہ،
فساد خون،
سوزاکِ مزمن،
آتشک،
ضعف معدہ،
اسہالِ مزمن،
قروح وبثور اور ہر قسم کے جریان الدم میں مفید ہے۔
کوڑی کا کشتہ تیار کرنے کے لئے  خر مہرہ کَوڑِی کومٹی کے کوزہ میں گلِ حکمت کوزے میں کوڑیاں ڈال کر اس کے اوپر گیلی مٹی لیپ دی جاتی ہے کر کے بیس کلو اُپلوں کی آگ  دی جاتی ہے-
مقدار خوراک 500 ملی گرام تا ایک گرام تک شہد یا کسی مناسب بدرقہ میں ملا کر کھلائیں۔
بطور کرنسی ان کی قیمت یہ تھی-

*3پھوٹی کوڑی= 1کوڑی*
*10 کوڑی= 1 دمڑی*
*02دمڑى = 1.5پائى*
*1,5پائى = 1دهيلا*
*02دهيلا = 1 پيس*
*6.25پيسه = 1 آنہ*
*16 آنه = 1 روپيئہ*

Post a Comment

0 Comments