اہرام مصر کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف۔



۔۔۔۔ ہرم خوفو (Pyramid of Khufu) ۔۔۔۔
 جسےگیزہ کا عظیم ہرم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہرم اہرامات گیزہ کے تین بڑے اہرام میں سے سب سے قدیم اور بڑا ہے۔ یہ مصر کے شہر گیزہ میں واقع ہے جس کی نسبت سے اسے ”گیزہ کا عظیم ھرم“ کہتے ہیں۔ یہ قدیم دنیا کے سات عجائبات عالم میں سب سے قدیم ہے۔ اور یہ ابھی تک اپنی اصلی حالت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ ہرم چوتھے مصری شاہی سلسلہ کے بادشاہ خوفو جسے چیوپس بھی کہا جاتا ہے کے مقبرہ کے طور پر بنایا گیا ہے۔
 ماہرین مصریات کے مطابق یہ ہرم 2560 سال قبل مسیح خوفو فرعون کے مقبرے کے طور پر استعمال ہوا۔ 3800 سو سال سے اس کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا تھا۔ اس کی بلندی 146.5 میٹر(481 فٹ) ہے۔ 3800 سو سال سے اس عظیم ہرم کا شمار انسانی ہاتھ کی بنائی هوئی سب سے اونچی تعمیر میں ہوتا تھا۔ یہ ہرم سنگ مرمر سے بنے پتھریلے غلاف (casing stones) سے ڈھکا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی بیرونی سطح هموار تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کی بیرونی سطح سے یہ پتھریلا غلاف کھرچ گیا یا کسی نے دوسری تعمیرات کے لیے اسے اکھیڑ دیا لیکن اب بھی اس کی بالائی اور زیریں سطح پر اس پتھریلے غلاف کے باقیات باقی ہیں۔ اس کی تعمیر کے بارے میں مختلف مفروضات ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کی تعمیر بڑے بڑے پتھروں کو پتھروں کی کان سے کاٹ کر اور تراش کر اور مختلف مقامات سے اسے کھینچ کر کی گئی ہے۔ اس کے اندر تین خانے بنے ہوئے ہیں۔ سب سے نچلا خانہ اس کی بنیادی پتھر کو تراش کر بنایا گیا ہے جو نامکمل ہے۔ ملکہ کا خانہ اور بادشاہ کا خانہ بلائی سطح پر ہے۔ اهرامات جیزه کا اہم حصہ عمارات کا وہ سلسلہ ہے جس میں دو معبد مردہ ہیں جو خوفو بادشاہ کے اعزاز میں بنائے گئے ہیں ان میں سے ایک ہرم کے نزدیک اور دوسرا دیائے نیل کے نزدیک ہے۔ ان دونوں معبدوں کے درمیان میں ایک ابھری ہوئی رصیف ہے۔ خوفو بادشاہ کی تین بیویوں کے حرم ان دونوں معبد مردہ کے درمیان میں ہیں اور ان اپرام کے گرد چھوٹے مقبرے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے ہرم ہیں۔

یہ 20 سال کے عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ کچھ ماہرین کے خیال میں خوفو بادشاہ کا وزیر حمیونو اس کا معمار تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں اس کی 146.5 میٹر (480.6 فٹ) تھی لیکن شکست و ریخت سے اس کی موجودہ اونچائی 138.8 میٹر(455.4 فٹ) رہ گئی ہے۔ اس کے چاروں قاعدوں میں سے ہر قاعدہ 230.4 میٹر (755.6 فٹ) ہے۔ اس کے وزن کا اندازہ 5.9 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ اس کا حجم 2,500,000 کیوبک میٹر(88,000,000 کیوبک فٹ) ہے۔ ان اندازوں کی بنیاد پر 20 سالہ دور تعمیر میں ہر دن تقریباً 800 ٹن پتھر لگایا جاتا تھا۔ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر تقریباً 2.3 ملین بلاکوں پر مشتمل ہے اس اندازے کی بنیاد پر 20 سال کے عرصہ تعمیر میں دن اور رات کے ہر گھنٹے میں تقریباً 12 بلاک لگائے جاتے تھے۔ سب سے پہلے اس کی پیمائش ماہر مصریات سر فلنڈرز پیٹرینے 1880ء سے 1882ء میں کی اور 'دی پیرامائڈز اور ٹیمپلز آف گیزہ' کے نام سے شایع کی۔ یہ تمام درست اندازے اس کی پیمائش کی بنیاد پر ہیں۔ بہت سے پتھریلے غلاف اور اندرونی خانے کے بلاک انتہائی پیمائش میں جڑے ہوئے ہیں۔ شمال مشرقی پتھریلے غلاف کی پیمائش کی بنیاد پر جوڑوں کا اوسط خلا 0.5 ملی میٹر وسیع ہے۔
جب تک 1300 صدی عیسوی میں 160 میٹر اونچا لنکن کیتھڈرل نہیں بنا تھا اس کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا تھا۔ اس کو اس قدر درست انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس کی چاروں قاعدوں کی لمبائی میں اوسطا صرف 58 ملی میٹر کی غلطی ہے۔ اس کا قاعدہ افقی اور ہموار ہے۔ اس کے مربعی بنیاد کے چاروں قاعدے چار سمتموں شمال، جنوب، مشرق، مغرب کو ظاہر کرتے ہیں یعنی اس کی تعمیر چار سمتوں کو ملحوظ رکھ کر کی گئی ہے اور یہ حقیقی یا قطبی سمتوں کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ مقناطیسی سمتوں کو۔ فلنڈرز پیٹری کی تحقیق کے مطابق اس کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ یہ 280 ذراع (اcubit) بلند ہے۔ ( 'ذراع' لمبائی کی پیمائش کا معیار ہے جو قدیم مصری استعمال کرتے تھے ایک ذراع تقریباً 0.525 میٹر یا 52.5 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔) اور اس کے مربعی بنیاد کے چاروں قاعدوں میں سے ہر قاعدہ 440 ذراع لمبا ہے۔ اس کے مربعی بنیاد کا محیط 1760 ذراع ہے۔ اس کے محیط (1760 ذراع ) اور اونچائی (280 ذراع) کی نسبت 2π ہے۔ اس کو ریاضیاتی طور پر یوں ظاہر کیا جاتا ہے 1760/280=2π اس کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قدیم مصری π سے آگاہ تھے جبکہ ماہرین مصریات کے مطابق یہ صرف اس کی تعمیر کا نتیجہ ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ہم کسی بھی دائروی تعمیر کے محیط کو اس کے دوگنے رداس پر تقسیم کر کے ہم π کی قیمت نکال سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ اس دائروی تعمیر کا معمار π سے آگاہ ہو۔ ورنر لکھتا ہے کہ ”ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگرچہ قدیم مصری π کی تعریف نہیں کر سکے لیکن عملی طور وہ اسے استعمال کر چکے ہیں۔“ سر ولیم فلنڈرز پیٹری 'دی پیرامائڈز اینڈ ٹیمپلز آف گیزہ' کا مصنف یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ”ان مربعی اور دائروی نسبتوں کا تعلق ایسا ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ معمار کے تعمیر کے خاکے میں موجود ہے۔“ کچھ لوگوں کے خیال میں قدیم مصری π کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی تعمیرات میں اسے محفوظ کرنے کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہرم کی ڈھلان عام سیکڈ کی ڈھلان کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔

یہ عظیم ہرم پتھروں کے تقریباً 3.2 ملین بلاکوں سے بنایا گیا ہے زیادہ تر پتھر قریبی پتھروں کی کانوں سے لائے گئے ہیں۔ ہرم کا بیرونی غلاف سنگ مر مر کے پتھر سے بنایا گیا ہے جو طرة کی کان سے لایا گیا ہے یہ کان قاہرہ کے جنوب میں دریائے نیل کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ ہرم میں شاہ کے خانے میں سنگ خارا (گرینائٹ) کے بڑے پتھر ملے ہیں جن کا وزن 25 سے 80 ٹن ہے یہ پتھر اسوان شہر سے لائے گئے ہیں جو مصر کے جنوب میں عظیم ہرم سے تقریباً 800 کلومیٹر (500 میل) کے فاصلے پر واقع ہے سے دریائے نیل کشتیوں کے ذریعے لائے گئے۔ روایتی طور پر قدیم مصری پتھر توڑنے کے لیے لکڑی کی چھینی اور ہتھوڑے کا استعمال کرتے تھے وہ پتھر میں چھینی ڈال کر ہتھوڑا مارتے تھے پھر اسے پانی سے گیلا کیا جاتا تھا جب پانی پتھر میں جذب ہو جاتا تو وہ اس کو پھیلا دیتا جو پتھر میں بڑے شگاف کا باعث بنتا اور یوں پتھر کو بڑے ٹکروں میں کاٹ دیا جا تا تھا بعد میں انہیں دریائے نیل میں کشتیوں یا کسی اور ذریعے سے جو کہ بیل گاڑیوں، اونٹ گاڑیوں وغیرہ پر مشتمل تھا ہرم تک منتقل کیا جاتا تھا۔
کئی بڑے اہرام کے پاس نہروں کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جنہیں دریائے نیل سے کاٹ کر اہرام تک لایا گیا تھا- اس کے علاوہ ایسی تحاریر بھی دریافت ہو چکی ہیں جن میں ان انجینیئرز کی روٹین درج ہے جو ان نہروں کے ذریعے بڑے بڑے پتھر کشتیوں پر لاد کر ان اہرام کی جائے تعمیر تک پہنچاتے تھے- ان تحاریر میں وہ step by step ہدایات درج ہیں جن پر عمل کر کے ان پتھروں کو اہرام تک پہنچایا جاتا تھا- ان ramps کے باقیات بھی دریافت ہو چکے ہیں جو زیرِ تعمیر عمارتوں کے گرد بنائے جاتے تھے تاکہ ان پتھروں کو گھسیٹ کر اس بلندی تک پہنچایا جا سکے جہاں انہیں نصب کرنا مقصود ہوتا تھا- جو گارا ان پتھروں کو جوڑنے میں استعمال ہوتا تھا اس کا بھی تجزیہ کیا جا چکا ہے اور اس کے تمام اجزا مصر میں میسر تھے۔ غرض کے ان کی تعمیر کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس کی طبعی وضاحت موجود نہیں ہے۔
یہ اندازہ لگایا جاتا ہے عظیم ہرم کی تعمیر میں 5.5 ملین ٹن سنگ مر مر ،8000 ٹن سنگ خارا (گرینائٹ) (اسوان شہر سے درآمد شدہ) اور 500,000 ٹن گارا استعمال ہوا ہے۔

عظیم ہرم کی تعمیر مکمل ہونے پر اسے سفید سنگ مر مر کی سلوں سے ڈھانپ دیا گیا تھا عظیم ہرم کے پتھریلے غلاف میں انتہائی صیقل شدہ سفید سنگ مرمر کی سلوں کو اس انداز میں تراشا گیا کہ وہ ہموار سطحی اور ڈھلان رخ ہوں اور ہرم میں جس مطلوبہ مقام پر اسے نصب کیا جانا تھا وہ اس مقام کے مطلوبہ معیار پر پورا اتریں۔ بڑے زلزلوں سے بیرونی پتھریلے غلاف اکھڑ گئے تھے جنہیں بعد میں مصری مملوک سلطان الناصر أبو المعالی ناصر الدین بدرالدین الحسن نے 1356 صدی عیسوی میں قاہرہ میں مساجد اور قلعوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ بہت سے دوسرے پتھریلے غلاف انیسویں صدی کے ابتدا میں محمد علی پاشا نے قاہرہ کی مسجد محمد علی کے بالائی حصہ کی تعمیر میں استعمال کیے۔ بعد میں کھوجیوں نے ہرم کی بنیاد میں پتھریلے غلاف کے مسلسل گرنے کے عمل کے نتیجہ میں پتھریلے غلاف کے ملبے کے ڈھیر کو دریافت کیا جو بعد میں کھدائی کے دوران میں صاف کر دیا گیا تھا۔ آج بھی ہرم کی بنیاد میں کچہ پتھریلے غلافی پتھر دیکھے جا سکتے ہیں جو بالکل اسی حالت میں ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔ پیٹری نے پتھریلے غلاف کی مختلف رُخ سے حد بندی کی اور تجویز دی کہ اس کی مرمت سے پہلے شمال کا نئے سرے سے تعین کیا جائے لیکن اس میں غلطی کی گئی اور پتھریلا غلاف مختلف رُخ سے لگایا گیا۔ پیٹری کی پیمائش موجودہ دور کے عینک سازی کی پیمائش کی طرح ہے جو انتہائی باریکی میں پیمائش کر تا ہے لیکن پیٹری کی پیمائش کا معیار ایکڑ ہے۔ ایسے پتھروں کو صحیح طریقے سے مرمت کرنے کے لیے بہت احتیاط برتنی پڑتی ہے ان کے جوڑوں میں عام سیمنٹ لگا کر مرمت کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ اس کی مرمت کے لیے پیٹری کا تجویز شدہ مخصوص گارا ہی استعمال کیا جائے۔ یہ پیٹری کا گارا ہی تھا جس نے اس ناممکن کام کو ممکن بنایا جس نے ہموار سطح بنائی اور کاریگروں کو اس قابل کیا کہ وہ پتھروں کو صحیح طریقے سے لگائیں۔

Post a Comment

1 Comments